ناروے میں گھریلو تشدد پر سیمینار: سفیرپاکستان رفعت مسعود، سابق رکن پارلیمنٹ اطہرعلی اور ماہرنفیاست و متعلقہ پولیس مشیر کا خطاب

This slideshow requires JavaScript.

اوسلو (بیورو روپورٹ) ناروےکے دارالحکومت اوسلو میں گذشتہ ہفتے غیرملکی پس منظررکھنے والے لوگوں میں گھریلو تشدد اور بچوں کی جسمانی سزائووں کے بارے میں غیرملکی پس منظررکھنے والوں لوگوں کی تنظیم ’’انواندرے فورم‘‘ کے زیراہتمام ایک سیمینار منعقد ہوا۔
سیمینار سے سفیرپاکستان محترمہ رفعت مسعود، سابق رکن نارویجن پارلیمنٹ و میزبان تنظیم کے سربراہ اطہرعلی اور ماہرنفیاست و متعلقہ پولیس مشیر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر جو شخصیات موجود تھیں، ان میں میزبان تنظیم کے نائب صدر خورشید احمد، سابق رکن نارویجن پارلیمنٹ شہباز طارق، پی پی پی ناروے کے سینئر رہنما علی اصغرشاہد، الیاس کھوکھر و جاوید اقبال، دانشور و مصنف ارشد بٹ، پاکستان یونین ناروے کے سیکرٹری اطلاعات ملک محمد پرویز، شعراء و ادباء آفتاب وڑائچ اور انجم وڑائچ، اخبار آفتن پوستن کے صحافی وسیم ریاض، پاک۔ناروے کے فورم کے صدرچوہدری اسماعیل سرور، سماجی شخصیات سید مبارک شاہ، چوہدری سکندرآف گھومٹی، چوہدری انور، ملک بشیر، خالد سلیم، شیرافگن اور خالد اسحاق قابل ذکر ہیں۔
سٹیج سیکرٹری کے فرائض انواندرے فورم کی خاتون عہدیدار ملیسا جاویدان نے انجام دیئے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اطہرعلی نے کہاکہ ناروے کے معاشرے میں بھی پہلے بچوں کو مارا جاتا تھا لیکن اب جسمانی تشدد قانوناً منع ہے۔ انھوں نے کہاکہ ان وجوعات کو سامنے لانے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے گھریلو تشدد ہوتاہے۔ یہ وجوعات سامنے آنے کے بعد تشدد کا سدباب ہوسکتاہے۔  یہ بھی پتہ لگانا ضروری ہے کہ تشدد کرنے والے شخص کو کہیں مورثی بیماری تو نہیں؟
نارویجن پولیس مشیر ’’کاتو انرسن‘‘ نے بتایاکہ دارالحکومت اوسلو کے گروردال، ساندرے نورستران، موٹنسرود ، فروست، ستونراورالنا برو کے علاقوں میں گھریلو تشدد بڑھا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ان علاقوں میں غیرملکی پس منظر رکھنے والوں لوگوں کے ہاں گھریلو تشدد میں پندرہ فیصد اضافہ ہواہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ اس کے سدباب کے لیے حکومت کیا کررہی ہے، پولیس آفیسر نے بتایاکہ یہ تازہ ترین اعداد و شمار ہیں۔ یقیناً حکومت اس مسئلے پر غور کرے گی۔ انھوں نے بتایاکہ نارویجن علاقوں میں بھی گھریلو تشدد ہے لیکن غیرملکی پس منظر رکھنے والوں لوگوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔

ماہر نفسیات انے ھیبرگ سیمونسن نے کہاکہ یہ نسل در نسل بھی ہوتاہے۔ یعنی مورثی بیماری بھی ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات ذہنی بیماری کے شکار فرد کو معاشرے میں بڑا ظالم و جابر سمجھاجاتاہے لیکن حقیقت میں وہ کمزور ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بعض اوقات بچپن میں تشدد کا شکارہوئے ہوتے ہیں۔ وہ سوسائٹی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اپنی تعلیم بھی جاری نہیں رکھ سکتے لہذا وہ معاشرے سے بھی بدلا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ناروے میں پاکستان کی سفیرمحترمہ رفعت مسعود نے  نے کہاکہ تشدد کا بچوں پر بہت برا نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔ انھوں نے ناروے میں بچوں کی نگہداشت والے ادارے کے بارے میں کہاکہ بعض اوقات اس ادارے کے عہدیدار غلط فہمی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں جس سے خاندان اور ان کے بچوں پر اثر پڑتاہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کرنے سے قبل مکمل چھان بین کرلینی چاہیے۔




Recommended For You

Leave a Comment